2017-10-17 11:32:19
00:41:27
Urdu
Video content is provided via the
YouTube platform.
All rights and ownership belong to the original content creator.
Source channel:
Khursheed Abdullah
سنگیت رتن استاد عبدالکریم خان
(1937-1872)
ہندوستانی سنگیت کو بیسویں صدی میں استاد عبدالکریم خان سے بڑا فنکار نصیب نہیں ہوا۔ استاد عبدالکریم خان ہر سانس کو سر میں بدلنا چاہتے تھے۔ ہر جذبے کو تان کی شکل دینا چاہتے تھے۔بندش، گمک اور مینڈھ تو گویا ہنر کا پردہ رکھنے کے بہانے تھے۔
کیرانہ کا قصبہ کوروکھیشتر کے قریب واقع تھا جہاں کوروں اور پانڈووں میں یدھ ہوا تھا۔ کیرانہ کے کالے خان صاحب سارنگی میں اپنا مقام رکھتے تھے۔ بیٹا عبدالکریم ابھی چار برس کا تھا کہ انہوں نے اس کی انگلی چھوڑ دی۔ کلا کی راہیں سنگین ہوتی ہیں۔ سایہ اٹھ جائے تو اور کٹھن ہوجاتی ہیں۔
1908 میں عبدالکریم خان مہاراجہ بڑودہ کے درباری گائیک ہوگئے۔ شاہی خانوادے کی نورس کلی تارہ بائی سے تعلقِ خاطر ہوگیا۔ دونوں چاہنے والوں کو بڑودہ چھوڑ کر بمبئی میں پناہ لینا پڑی۔اس بیچ میں استاد نے موسیقی کی تعلیم کے باقاعدہ ادارے قائم کئے۔ پونے کے قریب میرج کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنایا۔ دربار میسور سے سنگیت رتن کا خطاب پایا۔ 1922ءمیں تارہ بائی استاد عبدالکریم سے علیحدہ ہوگئیں۔ جس گلے سے سرکا چشمہ بہتا تھا اس پہ برہا کے گز کا باریک تار پھرگیا۔ استاد کی گائیکی میں ملال اور سوز کی لکیریں گہری ہوگئیں۔
سادھارن روپ میں جیون کرنے والا یہ کبیر پنتھی رابندر ناتھ ٹیگور کے ساتھ شعر کی نزاکتوں اور فزکس میں نوبل انعام یافتہ سی وی رامن سے موسیقی کے صوتیاتی اصولوں پر علمی مکالمہ کرتا تھا۔ استاد کریم کی گائیکی میں الوہی کیفیت تھی۔ سرگم کی چتر کاری میں وارفتگی اور عبودیت میں فاصلہ نہیں رہتا تھا۔ گاتے سمے استاد کریم کی سر ورشا سننے والوں پر یوں اترتی تھی جیسے کوئی عارف اپنے پیروکاروں میں گیان کے موتی بانٹتا ہے۔
استاد عبدالکریم وسطی ہندوستان کے پہلے گائیک تھے جنہوں نے جنوبی ہند کی راگ ودیا کو سمجھا بھی اور اپنی گائیکی میں سمویا بھی۔ 1937 میں جنوبی ہندوستان کی یاترا پر تھے۔ ریل گاڑی میں طبیعت کچھ ناساز ہوئی۔ ایک گمنام سے سٹیشن پر اتر پڑے اورٹالسٹائی کی طرح پلیٹ فارم پر دم توڑ دیا۔ روشن آرا بیگم راوی تھیں کہ استاد کریم آخری وقت میں درباری کے سروں میں کلمہ پڑھ رہے تھے۔ استاد فیاض خان کو خان صاحب عبدالکریم کے ناگہانی انتقال کی خبر ملی تو بے ساختہ کہا ”ہندوستان میں سر مرگیا“۔
وجاہت مسعود